
تمہید زندگی ایک اسٹیج ہے اور ہم فنکار۔ (انگریر شاعر، شیکسپئر)
تمثیل فطرتِ انسانی ہے۔ لیکن اس کاباقاعدہ ابتداء یونان سے ہوا۔ دنیا کی مختلف تہذیبوں نے یہیں سے اس کا اثر قبول کیا۔ اس سے قبل ہندوستان میں مذہبی اعتبار سے ناٹکوں کی بڑی اہمیت تھی۔ مگر جب مسلمان برصغیر میں آئے تو ا نہوں نے فن ڈرامہ کی حوصلہ افزائی نہ کی کیونکہ مذہب اسکی اجازت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرامے کی تاریخ سے ہمارا تعلق زیادہ پرانا نہیں۔
تعریف
ڈرامے کا لفظ ڈرامہ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی ہیں کچھ کرکے دکھانا۔ اس لحاظ سے ڈرامے میں گفتار کے بجائے کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن محض کردار پر مضبوط گرفت ہی ڈرامے کی کامیابی کی ضمانت نہیں بلکہ اس کے اجزائے ترکیبی میں پلاٹ، آغاز، مرکزی خیال، کردار نگاری اور نکتہ عروج جیسے فنی لوازم کی کیساں طور پر تکمیل ضروری ہوتی ہے۔
اردو ڈرامے کا ارتقاہ
کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ ڈرامے کی ابتداءقدیم زمانے میں رقص و سرور کی محفلوں سے ہوئی جو کسی قبیلے کی فتح یا مذہبی تہوار کے موقعوں پر منعقد ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ فارس اور مصر میں دیوتاوں کی پرستش کی خاطر اس قسم کے چھوٹے چھوٹے کھیل کھیلے جاتے تھے۔ ڈرامے کو ناقدینِ فن تین ہزار سال پرانا فن کہتے ہیں۔
بہرحال ہندوستان میں اردو ڈرامے کا آغاز امانت لکھنوی کی اندرسبھا سے ہوا ۔ اس ڈرامہ میں ناچ گانے زیادہ تھے ۔ یہ پہلا اردو ڈرامہ تھا جو اسٹیج پر کھیلا گیا۔
پارسی ڈرامے
اندرسبھا کے کچھ عرصے کے بعد ناٹک کا کاروبار بمبئ کے چند پارسیوں نے سنبھال لیا۔ انہوں نے تھیٹر کی خدمت ضرور کی لیکن ڈرامے میں کوئی قابلِ قدر اضافہ نہ کرسکے۔ اس زمانے کے پارسی ڈراموںمیں فن کی خدمت کا جذبہ کم اور تجارتی مقاصد زیادہ تھے۔ معروف ڈرامہ نگاروں میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
■طالب بنارسی■شیخ محمود احمد■رونق بنارسی■نظیر بیت■میاں ظریف■غلام حسین■حافظ عبداللہ
طالب بنارسی کے مشہور ڈراموں کے نام درج ذیل ہیں:
■لیل ونہار■دلیر دل شیر■نگاہِ غفلت
آغاحشر کے ڈرامے
اردو ڈراموں میں آغا حشر کو بابائے ڈرامہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہیں فارسی، ہندی، عربی اور دیگر کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ شعر و شاعری سے بھی لگاو تھا۔ پھر ان کے والدین بنارس جا بسے۔ جہاں انہوں نے پہلی مرتبہ ڈرامہ دیکھا اور گھر سے بھاگ کر بمبئ پہنچ گئے۔ جلد ہی یہ جوہرِ قابل رنگ لایا اور تھیٹریکل کمپنی سے وابستہ ہوگئے۔
انہوں نے تقریباً تین درجاً ڈرامے لکھے۔ جن میں سے چند ذیل میں درج ہیں:
■شہید ناز■آنکھ کا نشہ■دل کی پیاس■یہودی کی لڑکی■خوابِ ہستی■رستم سہراب■احسن و بیتاب
عوام کی اکثریت مالکوں کے مذاق کے دائرے میں محبوس تھی۔ ان ڈراموں کا مقصد سستی شہرت اور تفریح تھا۔ سید مہدی حسن احسن لکھنوی اور پنڈت ترائن پرشاد بیتاب اس دور میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ احسن نے شیکسپئر کے ڈراموں کا اردو مین ترجمہ کیا۔ ان میں مندرجہ ذیل ڈرامے اپنے بدلے ہوئے ناموں کے ذیل میں درج ہیں:
■رومیو جولیٹ بزم فانی■ہیملٹ خونِ ناحق■مرچنٹ آف ولینس دلفروش■اوتھیلو شہید وفا
مگر ان ترجموں کا معیار پست رہا البتہ مکالموں میں نشر اور سلاست پر زیادہ زور دیا گیا۔ اچھے شاعر تھے لہذا گانوں کا ادبی معیار بلند کیا۔
بیتاب کے لکھے گے ڈراموں میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
■مہا بھارت■امرت■رامائن■کرشن سوامی
انہوں نے بھی تراجم کیے جن میںسب سے زیادہ شہرت کا حامل ہونے والا ڈرامہ یہ ہے:
■کامیڈی آف ایررز■گورکھ دھندا
امتیاز علی تاج
امتیاز علی تاج کاڈرامہ انارکلی شاہکار ڈرامہ ہے جو کہ شہرت اور مقبولیت کے بامِ عرو پر پہنچا۔ حالانکہ اس میں تاریخی شواہد کو نظرانداز کیا گیا۔ اس کے علاوہ قرطبہ کا قاضی اور مزاحیہ سیرل چچا چھکن جو کہ انگریزی ڈرامے Three Man in A Boat سے ماخوذ ہے۔ جیسے زندگی سے بھرپور ڈرامے بھی امتیاز علی تاج کی کاوشیں تھیں۔ ادبی ڈرامے
۵۳۹۱ءمیں ریڈیو نے مخصوص ضروریات کے تحت ایک ایکٹ کے ڈرامے کو فروغ دیا۔ اس زمانے میں مشہور ہونے والے ڈرامہ نگار اور ڈرامہ یہ ہیں:■مولانا محمد حسین آزاد – اکبر■احمد علی شوق – قاسم زہرا■عبدالحلیم شرر – شہیدِ وفا■مولانا ظفر علی خان – روس و جاپان
ترقی پسند ڈرامہ
۶۳۹۱ءمیں ترقی پسند تحریک کا اجراءہوا۔ ترقی پسند ڈرامہ نگاروں میں مندرجہ ذیل کے نام بہت مشہور ہیں:
■سعادت حسن منٹو – آو اور کروٹ■مرزا ادیب – آنسو اور ستارے■ادیندر ناتھ اشک – قیدِ حیات
ان کے علاوہ کنہیا لال کپور نے طنزو مزاح اور عصمت چغتائی نے فسادات کے موضوعات پر قلم کاری کی۔
ریڈیائی ڈرامے
ریڈیو کے صفت نے زور پکڑا تو ڈرامے کے فن کو بڑی ترقی ملی۔ اس دور کے خاص لکھنے والوں میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
■اشفاق احمد■بانو قدسیہ■ہاجرہ مسرور■آغا بابر■انتظار حسین■شوکت تھانوی■امتیاز علی تاج■ابراہیم جلیس
ٹی وی ڈرامے
ٹی وی نے بھی ڈرامے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے لکھنے والوں میں مندرجہ ذیل ڈرامہ نگاروں کے نام نمایاں ہیں:
■اشفاق احمد■بانو قدسیہ■احمد ندیم قاسمی■امجد اسلام امجد■فاطمہ ثریا بجیہ■حسینہ معین■اطہر شاہ خان■انور سجاد■یونس جاوید■انور مقصود■منو بھائی■کمال احمد رضوی■صفدر میر
اسٹیج ڈرامے
ڈرامے کا اصل لطف اسٹیج پر ہی آتا ہے۔ اسٹیج کے ڈرامہ نگاروں میں سب سے بڑا نام خواجہ معین الدین کا ہے جن کے دو ڈرامے تعلیم بالغان اور مرزا غالب بندر روڈ پر بہت مشہور ہوئے۔ لیکن آج کل اسٹیج ڈرامہ اپنے مکالموں کی وجہ سے بدنامی اور پستی کا شکار ہوگیا ہے۔
عصرِ حاضر
عصرِ حاضر نے ڈرامے کو جلا بخشی ہے اور ڈرامے کو زندگی کا ترجمان بنایا ہے۔ سیاسی ، سماجی معاشرتی مسائل کو ڈرامے کا موضوع بنایا گیاہے۔ اسطرح یہ فن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
الغرض اردو ڈرامے کی عمر اگرچہ زیادہ نہیں ہے تاہم اس میں تخلیقی اور تکنیکی اعتبار سے کافی پیش رفت ہوئی ہے اور اگر یہی رفتار برقرار رہی تو اس میں مزید وسعت اور نکھار پیدا ہوگا۔
No comments:
Post a Comment